یہ معاشرہ؟ – حسن نثار
وحشت سی طاری ہے جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔صرف ایک دن، صرف چند خبریں کافی ہیں۔’’کبوتر بازی سے منع کرنے پر چھوٹے نے بڑے بھائی کو قتل کردیا‘‘’’جائیداد کے جھگڑے پر بیٹے نے باپ کو قتل کردیا‘‘’’والد نے بیٹی کا شناختی کارڈ بلاک کرا دیا‘‘’’پولیس کے ہاتھوں طالب علم قتل‘‘ ’’ماں نے چھٹی منزل سے بچی پھینک کر چھلانگ لگا دی‘‘کہتے ہیں دیگ کے چند دانے چکھنے سے ہی پوری دیگ کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ 22کروڑ کی آبادی میں ایسی صورت حال تشویش ناک نہیں، معمول کی ’’کارروائی‘‘ ہے لیکن کم از کم میرے نزدیک عوام کی اجتماعی نفسیاتی اور جذباتی حالت بدترین قسم کے عدم توازن کی لپیٹ میں ہے اور بدقسمتی کی انتہا یہ کہ ’’اقتصادی بحران‘‘ کے علاوہ حکمران طبقہ کو اور کسی قسم کا کوئی بحران دکھائی ہی نہیں دے رہا۔معاشرہ میں ’’نیوسنس ویلیو‘‘ کے علاوہ دیگر ویلیوز میں سے کچھ ’’شہید‘‘ ہو گئیں، کچھ ’’قتل‘‘ کردی گئیں، کچھ ’’لاپتا‘‘ قرار پائیں، کچھ نے ’’خودکشی‘‘ کرلی… باقی ’’بیمار‘‘ ہیں یا ’’قریب المرگ‘‘ جنہیں شاید قبریں بھی نصیب نہ ہو سکیں کیونکہ اب قبر کی عیاشی بھی ہر مردہ افورڈ نہیں کر سکتا۔ہمارے معاشرہ کی اولین پہچان ریٹ ریس (RAT RACE) یعنی ’’چوہوں کی ریس‘‘ ہے جسے پیسے کی
دوڑ کہا جاتا ہے اور جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ’’ریٹ ریس‘‘ جیتنے والا رہتا ریٹ RATیعنی ’’چوہا‘‘ ہی ہے کیونکہ انسان ہونے کی ہر پہچان اور قدر سے محروم ہو جاتا ہے لیکن یہ معاشرہ تو شاید اس مقام سے بھی بہت آگے نکل چکا کیونکہ امریکہ جیسے ملک میں بھی ڈالر ’’خدا‘‘ سمجھا جاتا ہے (نعوذ باللہ) لیکن کوئی کسی امریکن کو کیمیکل سے دودھ بنانے، دو نمبر دوائیں تیار کرنے، پریشر سے پانی انجیکٹ کرکے گوشت کا وزن بڑھانے، گڑ سے جعلی شہد بنانے کا مشورہ دے تو وہ سیدھا تھانے جا کر رپورٹ کرے گا کہ فلاں فلاں "SOB” یہ شیطانی منصوبے بتا رہا ہے لیکن یہاں؟ الامان الحفیظ۔ کسی بازار میں نہ باٹ صحیح نہ تول درست، نہ قیمتوں میں کوئی تال میل، ایک بازار ایک جنس لیکن قیمتیں مختلف۔ انتہا یہ کہ عوام نے عملاً بددیانتی کو ’’وے آف لائف‘‘ کے طور پر قبول کر لیا ہے۔ ایک ہی جنرل سٹور پر ایک طرف چنوں کی بوری ہے دوسری بیسن کی اور ظاہر ہے بیسن کو چنوں سے مہنگا ہونا چاہئے کیونکہ گرائنڈنگ وغیرہ کی لاگت اضافی ہوتی ہے لیکن دکاندار دھڑلے سے چنوں کی زیادہ قیمت بتائے گا کیونکہ چنوں میں ملاوٹ ممکن نہیں، بیسن کا بنیادی جزو ہے اور کمال دیکھیں کہ گاہک کے کان پر جوں بھی نہ رینگے گی کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس دھوکہ منڈی میں اس کے علاوہ اور کچھ ممکن ہی نہیں۔ معاشرہ ہوتا کیا ہے؟اک ایسا ’’اکٹھ‘‘ جو انسانوں
کے درمیان منصفانہ قسم کے معاشی رشتوں کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ معاشی رشتے جتنے متوازن و منصفانہ ہوں گے، معاشرہ بھی اتنا ہی متوازن و منصفانہ ہوگا۔ بصورت دیگر وہی کچھ ہوگا جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قدم قدم پر دکھائی دیتا ہے اور مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں یہ خطہ ہی بددعایا ہوا ہے ورنہ عشروں پہلے ساحر لدھیانوی کو یہ نہ لکھنا پڑتا:اِس طرف بھی آدمی ہے اُس طرف بھی آدمیاِسکے جوتوں پر چمک ہے اُسکے چہرے پر نہیںاس قسم کے معاشرے میں رشتے اتنے ہی وحشیانہ اور سفاکانہ ہوتے ہیں جو کالم کے آغاز میں عرض کئے اور خدشہ یہ ہے کہ یہ وحشت اور سفاکی کہیں سارے سائونڈ بیرئیرز ہی نہ توڑ دے۔یہاں عمر بن خطاب ؓیاد آتے ہیں۔ اپنی تاریخ ساز خلافت کے ابتدائی دنوں میں بازار سے گزر رہے کہ اک دکان پر نظر پڑی جس میں کھجور کی تین ڈھیریاں بہت نمایاں تھیں۔ آپ رک گئے۔ کچھ دیر سوچا اور دکان پر تشریف لے گئے۔ دکاندار سے علیک سلیک کے بعد پوچھا ان تین ڈھیریوں میں کیا فرق ہے؟دکاندار نے کہا؟ امیر المومنین! ایک ڈھیری درجہ اول، دوسری ڈھیری درجہ دوم اور تیسری ڈھیری درجہ سوم کھجوروں کی ہے۔فاروق اعظمؓ نے اپنے ہاتھوں سے تینوں ڈھیریوں کو مکس کرتے ہوئے کہا ’’تم میری موجودگی میں حضورؐ کی امت کو تین طبقوں میں تقسیم نہیں کر سکتے‘‘۔بہت سی باتوں اور واقعات کی ایک ’’سمبالک ویلیو‘‘ بھی ہوتی ہے لیکن کیا کریں کہ اس معاشرہ میں تو ’’نیو سنس ویلیو‘‘ کے علاوہ اور کوئی ’’ویلیو‘‘ ہی باقی نہیں رہ گئی۔
Source: Jung News
Read Urdu column Yeh Mashwara By Hassan Nisar