ژولیدہ بیان مکڑی! – عطا ء الحق قاسمی
تجریدی افسانہ نگار، ژولیدہ بیان مکڑی کے والد ماجد تجریدیت کی طرف مائل نہیں تھے بلکہ انہیں زندگی میں پے در پے صدمات اٹھانا پڑے جس کی وجہ سے وہ ذہنی بحران کا شکار ہوگئے تاہم وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے تھے نہ کسی کو اینٹ روڑا مارتے تھے بس سارا سارا دن دیوار کی طرف منہ کئے کھڑے رہتے تھے۔ جب دائی نے انہیں نومولود بیٹے کی نوید سنائی وہ اس وقت بھی دیوار کی طرف منہ کئے کھڑے تھے انہوں نے یہ خبر سن کر پلکیں جھپکائیں اور پھر آناً فاناً دائی سے کہا’’جائوجا کر اعلان کرو کہ اس کا نام ژولیدہ بیان مکڑی‘‘ رکھ دیا گیا ہے۔ غالباً انہوں نے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا تھا۔
ژولیدہ نے جوانی میں قدم رکھنے کے بعد جب تجریدی افسانہ نگاری شروع کی تو یہ نوشتہ دیوار درست ثابت ہوا بلکہ اس کی شہادتیں تو اس کے بچپن ہی میں ملنا شروع ہوگئی تھیں مثلاً اسکول کے زمانہ میں ایک روز اس کے ماسٹر صاحب نے اتحاد میں برکت واضح کرنے کے لئے دو بیلوں کی کہانی سنائی جو جنگل میں اکٹھے رہتے تھے اور باہمی اتفاق و محبت کی وجہ سے کسی کو ان کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنے کی ہمت نہ ہوتی تھی مگر بعد میں عیار دشمنوں کی پلاننگ کی وجہ سے جب ان میں نفاق پیدا ہوا تو ان کی طاقت ختم ہوگئی اور پھر وہ ایک ایک کر کے دشمن کی زد میں آگئے۔ ماسٹر صاحب نے یہ کہانی سنانے کے بعد لڑکوں سے کہا کہ وہ اسے اپنے لفظوں میں لکھ کر انہیں دکھائیں۔ ژولیدہ بیان مکڑی نے اس کہانی کا عنوان ’’بارہ دونی اکیس‘‘ رکھا اور نیچے جگہ خالی چھوڑ دی۔ ماسٹر صاحب اس پر ناراض ہوئے اور انہوں نے اگلے روز اس کے والد کو بلا کر کہا:’’اپنے بیٹے کی خبر لیں وہ حساب میں بہت کمزور ہے‘‘۔ ژولیدہ کے والد نے یہ سنا تو وہ پہلے دیوار کی طرف منہ کئے کھڑے رہے اور خلاف عادت پلاکی مار کر دیوار پر چڑھ گئے جہاں سے بڑی مشکل سے انہیں اتارا گیا۔
مکڑی نے کالج میں داخلہ لیا تو گھر سے دوری کی بنا پر وہ ہاسٹل میں رہنے لگا۔ اس دوران وہ اپنے گھر والوں کو جو خط لکھتا تھا اس کا نفس مضمون کسی کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ مگر مہینے کی آخری تاریخوں میں اس کی تحریر کے اسلوب میں تبدیلی آنا شروع ہو جاتی تھی اور اس میں الجھائو ختم ہو جاتا تھا، ان خطوط میں اس نے گھروالوں سے پیسے منگوائے ہوتے تھے۔ ژولیدہ کی بعد کی زندگی کے مطالعہ سے بھی یہ امر سامنے آتا ہے کہ روپے پیسے کا معاملہ آتے ہی اس کے نفس مضمون میں کوئی پیچیدگی نہیں رہتی تھی بلکہ ابلاغ عامہ کے اصولوں کے عین مطابق ہوتا تھا کئی دفعہ تو ان میں سے ابلاغ بلغم کی طرح پھسل کر باہر کو آتا تھا۔
ژولیدہ بیان مکڑی نے اپنا پہلا افسانہ ایک ادبی حلقے کے اجلاس میں پڑھا تو کچھ دیر کے لئے خاموشی طاری ہوگئی اور اجلاس کے شرکاء سخت شرمندگی کے عالم میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ ان سب کو اپنے پڑھے لکھے ہونے کا بہت زعم تھا مگر ان کی ساری قابلیت خاک میں مل گئی کیونکہ وہ افسانے میں چھپی تہہ در تہہ معنویت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔ بالآخر ایک نقاد نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور اس افسانے میں چھپی معنویت کی گرہیں کھولنا شروع کردیں جس پر باقی نقاد بغلیں جھانکنے لگے کہ ان کی ادب فہمی کا بھانڈا پھوٹ گیا تھا تاہم کچھ ہی دیر بعد باقی نقادوں پر بھی افسانے کے اسرار و رموز منکشف ہوئے اور انہوں نے افسانے میں موجود دیگر پرتیں واضح کرنا شروع کردیں اور یوں یہ ایک اعلیٰ درجے کا افسانہ قرار پایا اور ژولیدہ بیان مکڑی کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ اس کے نقادوں کے علم کا ڈنکا بھی چاروں اور بجا۔
مجھے زندگی میں ایک بار ژولیدہ بیان مکڑی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے، یہ اس کی شہرت کے عروج کا زمانہ تھا۔ میں نے ایک دوست سے اس کا ایڈریس لیا مگر وہاں پہنچ کر مجھے احساس ہوا کہ اس پورے علاقے کے لوگوں کا ادب سے کوئی علاقہ نہیں ہے کیونکہ اس بدنصیب بستی کا کوئی فرد اس کے نام سے واقف نہیں تھا۔ میں نے ژولیدہ بیان کو افسوسناک صورت حال سے آگاہ کیا تو اس نے بے نیازی سے کہا کہ شہرت اس کا مسئلہ نہیں۔میں نے عرض کیا کہ آپ عوامی ادیب ہیں۔ اس پر ژولیدہ بیان نے کہا کہ یہ درست ہے مگر ہم عوام کا ادب تخلیق کرتے ہیں عوام کے لئے ادب تخلیق نہیں کرتے۔ میں نے ژولیدہ بیان سے پوچھا کہ آیا ایسا ممکن نہیں کہ آپ عوام کا جو ادب تخلیق کریں اسے عوام بھی پڑھ سکیں۔ اس پر ژولیدہ بیان نے کنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھا اور پھر یک دم پلاکی مار کر دیوار پر چڑھ گیا۔ اسے بھی بڑی مشکل سے نیچے اتارا گیا۔
ژولیدہ بیان مکڑی کی وفات حسرت آیات اس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ منظر عام پر آنے کے دوران واقع ہوئی۔ پبلشر نے پروف ریڈنگ کروانے کے بعد یہ مسودہ فائنل پروف ریڈنگ کے لئے ژولیدہ بیان کے سپرد کیا۔ ژولیدہ بیان نے ایک ہی نشست میں یہ تمام افسانے پڑھنے کی کوشش کی اور اس کوشش کے نتیجے میں اس کے دماغ کی شریان پھٹ گئی جس سے وہ موقع پر ہی انتقال کر گیا۔
زنباخ تر یہا، لکا زنباخ تر یہا
(قندر مکرر)