یوں دکانوں پر ضمیروں کی فراوانی نہ تھی – اوریا مقبول جان
غالب ؔکا ایک شعر کمال کا ہے وفاداری بشرطِ استواری اصلِ ایماں ہے مرے بُت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو دُنیا کا ہر رشتہ اور تعلق، دوستی اور سانجھے داری اس بات کی تو اجازت دیتی ہے کہ آپ اس سے علیحدہ ہو جائیں، لیکن ساتھ رہ کر بے وفائی کرنا، دُنیا کے ہر معاشرے میں ایک گھنائونا، گھٹیا اور انسانی اخلاقیات سے گرا ہوا فعل قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ایک غیر شادی شدہ مرد یا عورت کے لئے زنا کی سزا سو کوڑے ہیں، جبکہ اگر رشتہ ازدواج میں بندھا ہوا کوئی مرد یا عورت زنا کرے تو اسے سنگسار کر کے اس کے وجود سے ہی اس دھرتی کو آزاد کیا جاتا ہے۔ کسی بھی کاروباری شراکت میں یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کی اس کمپنی میں شراکت بھی چلتی رہے، آپ اس سے علیحدہ بھی نہ ہوں، مگر آپ اس کے مفاد کے خلاف سودے بازیاں کرتے پھریں اور ساتھ لوگوں کو یہ بھی بتاتے پھریں کہ ایسا سب کچھ، میں اپنے ضمیر کی آواز پر کر رہا ہوں۔ یہ حرکت دُنیا بھر میں دھوکہ، بددیانتی اور خیانت کے زمرے میں آتی ہے۔ آپ زندگی میں کسی بھی سیاسی، معاشرتی، اصلاحی نظریے پر بنائے گئے کسی گروہ، تنظیم یا پارٹی کے اگر رکن ہیں تو اس سے اختلاف کی بنیاد پر اسے چھوڑ تو سکتے ہیں، لیکن یہ انتہائی نامناسب اور غیر اخلاقی حرکت ہے کہ آپ اسی گروہ، تنظیم یا پارٹی کے رکن بھی رہیں مگر آپ اس کے خلاف گفتگو کریں اور اس کے مفادات کے خلاف کام کریں۔ وفاداری انسانی تہذیب کا حسن ہے اور بے وفائی انسانی معاشرت کا غلیظ ترین چہرہ ہے۔
انسانوں نے اپنے تہذیبی ارتقاء میں جس ادارے کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے اور جو ہماری معاشرت کی اہم ترین بنیاد تصور ہوتا ہے وہ خاندان ہے۔ خاندان ایک مرد اور عورت کے باہمی رشتہ ازدواج سے وجود میں آتا ہے۔دُنیا کے جدید ترین معاشروں میں بھی میاں اور بیوی کے درمیان جو رشتہ ہے،اس کے تقدس کی بہت اہمیت ہے۔ شادی شدہ مرد اور عورت کی بے وفائی کو آج کی دُنیا بھی ایک انتہائی قبیح فعل گردانتی ہے،جسے انگریزی میں "Infidelity” کہتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں جتنے بھی مرد یا خواتین قتل ہوتی ہیں، ان میں سے ایک کثیر تعداد ان عورتوں اور مردوں کی ہوتی ہے جن کو ان کے خاوند یا بیوی یا پھر بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ بے وفائیوں کی وجہ سے قتل کرتے ہیں۔ جدید سیاست میں یوں تو نظریہ اور سیاسی پارٹی بہت بعد میں وجود میں آئی، لیکن حکمرانی میں وفاداری کا تصور بہت ہی قدیم ہے۔ جمہوریت سے پہلے دُنیا بھر میں خاندانی بادشاہت کا رواج تھا۔ اس بادشاہت میں تو وفاداری شرطِ اوّل ہوا کرتی تھی۔ لوگ ایک بادشاہ کو چھوڑ کر دوسرے بادشاہ کے ساتھ مل جاتے تو تھے ہی کہ ہر دور میں علیحدہ ہونے کا یہی ایک باعزت اور وقار طریقہ سمجھا جاتا تھا۔ لیکن کسی بادشاہ کے ساتھ رہ کر، اس کے پرچم کو تھام کر، اس کے خلاف گفتگو کرنا ناقابلِ معافی جرم ہوتا تھا۔ شیکسپیئر کے ڈرامے ’’جولیس سیزر ‘‘ (Julius Caesar)کا مشہور کردار ’’بروٹس‘‘ آج تک پوری دُنیا میں بادشاہ سیزر سے غداری کی علامت کے طور پر مشہور ہے۔ کوئی بھی دوست یا ساتھی جب بے وفائی کرتا ہے تو شیکسپیئر کا مشہور فقرہ "You too Brutus us” (بروٹس تم بھی) دہرایا جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے دو کردار میر جعفر اور میر صادق بھی ایسی ہی سیاسی بے وفائی کی مثال ہیں جو چند سالوں میں ہی ضرب المثل کا درجہ حاصل کر گئے۔ اقبالؒ کے اس شعر میں ان کا کس ذلّت و رُسوائی سے تذکرہ ہے جعفر از بنگال، صادق از دکن ننگِ ملت، ننگِ دین، ننگِ وطن قدیم بادشاہتوں میں سیاست اور سپہ گری دونوں ایک ہی شخصیت کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ پنج ہزاری یا دس ہزاری منصب والے دراصل اہلِ دربار تو ہوتے ہی تھے مگر وہ پانچ ہزار یا دس ہزار سپاہیوں کے جتھے کے سپہ سالار بھی ہوتے تھے۔
کسی کے پاس دربار میں وزیر کا عہدہ ہوتا تھا یا وہ کسی علاقے کا گورنر ہوتا تھا۔ آج کی جمہوری سیاست نے سیاست گری اور سپہ گری کو علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے، بلکہ بادشاہ کی ذات میں مرتکز لاتعداد اختیارات کو بھی مختلف اداروں میں تقسیم کر دیا ہے۔ پہلے بادشاہ ہی قانون اور قانون ساز ہوتا تھا۔ اب ایک قانون ساز ادارہ مقننہ کے نام پر وجود میں آ چکا ہے۔ قدیم دور میں بادشاہ ہی عدل کی زنجیر ہلانے پر انصاف کرتا تھا،اب عدلیہ وجود میں آ گئی ہے۔ فوج اور بیورو کریسی تو شروع دن سے موجود تھی اور آج بھی ویسے ہی موجود ہے۔ قانون ساز ادارے اس جمہوری نظام میں کہیں پارلیمنٹ، کہیں کانگریس اور کسی ملک میں اسمبلیوں کے نام سے موجود ہوتے ہیں۔ جمہوریت چونکہ معاشرے کے تضادات سے جنم لینے والی ایک اکثریتی حکومت کا نام ہے، اس لئے ہر جمہوری ملک میں سیاسی پارٹی کو لازم قرار دیا گیا ہے۔جمہوری نظام کا پورا ڈھانچہ اللہ کی نہیں بلکہ انسانوں کی حاکمیت پر کھڑا ہے، اس لئے اس میں قانون سازی کے لئے نظریاتی پارٹیوں کو مذہب کا درجہ دیا جاتا ہے۔
یہ تمام سیاسی پارٹیاں سیاسی مذاہب ہیں جو ایک جمہوری دین (Way of Life) کی فقہیں (Legal Code) مرتب کرتی ہیں، جو جمہوریت کی مختلف تعبیریں ہوتی ہیں جیسے لبرل، سیکولر، سوشل ڈیمو کریٹک، کنزرویٹو، فار رائٹ (For Right) سنٹرل رائٹ (Central Right) فار لیفٹ اور سنٹرل لیفٹ وغیرہ۔ پاکستان میں ان نظریاتی پارٹیوں میں جماعتِ اسلامی، جمعیت العلمائے اسلام جیسی مذہبی، مزدور کسان پارٹی جیسی کیمونسٹ اور پشتونخواہ ملی پارٹی جیسی قوم پرست پارٹیاں بھی شامل ہیں۔ جمہوریت کے دین میں ہر سیاسی پارٹی کا اپنا ایک نظریہ (مذہب) ہوتا ہے جس کی وفاداری پوری دُنیا میں ویسے ہی لازم سمجھی جاتی ہے جیسے کسی آسمانی مذہب کی۔ مغربی دُنیا میں تو یہاں تک معاملہ سخت ہے کہ آپ ایک پارٹی چھوڑ کر دوسری پارٹی میں بھی شامل ہو جائیں تو لوگ آپ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں۔ برطانیہ میں انتہائی قدآور شخصیت چرچل کی ہے جو آغازِ سیاست سے کنزرویٹو پارٹی کا ممبر تھا۔ اس کے پارٹی کے ساتھ 1904ء میں اختلافات پیدا ہوئے تو وہ پارٹی چھوڑ کر لبرل پارٹی میں شامل ہو گیا اور مانچسٹر سے سیٹ بھی جیت گیا۔ لیکن اگلے الیکشنوں میں عوام نے پارٹی چھوڑنے کی ایسی سزا دی کہ اُسے سیاست چھوڑنا پڑی اور وہ فوج میں بھرتی ہو گیا۔ لوگوں کی یادداشت کمزور ہوئی تو واپس سیاست میں آیا۔ الیکشن جیتا، وزیر اعظم بنا، وہ جنگِ عظیم دوّم کا ہیرو تھا۔ لوگ اس سے محبت کرتے تھے، اس کی خطابت کے دیوانے تھے۔ جنگ میں اس کی خطابت کی ضرورت تھی، لیکن جیسے ہی برطانیہ جنگ جیتا، اسکی ضرورت ختم ہوئی، چرچل کو شکست دے کر سیاست سے باہر کر دیا گیا۔ دُنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں ایک پارٹی کو چھوڑ کر دوسری پارٹی میں شامل ہونا انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے، اور یہ حرکت تو ناقابلِ برداشت ہے کہ آپ اسی پارٹی میں رہ کر اس کے مفادات کے خلاف کام کریں۔ ایسے افراد کو عالمی سیاست میں "Turn Coat” یعنی بے اُصول، نمک حرام، غدار اور زمانہ ساز جیسے الفاظ سے یاد کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا موجودہ فیصلہ اس معاملے میں اس لئے تاریخی ہے کہ اس نے ایسے بے اُصول ممبرانِ اسمبلی کی رائے کو بھی اس قابل نہیں سمجھا، کہ اُسے گِنا جائے۔ لیکن دُکھ کی بات یہ ہے کہ گذشتہ چند مہینوں سے میرے ملک کے لاتعداد دانشور، صحافی اس بے وفائی کو ’’ضمیر کی آواز‘‘ کہہ کر اس کا دفاع کرتے رہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ یوں تو وفاداریاں بدلنے والے سیاستدانوں کے خلاف ہے لیکن ایک زوردار طمانچہ ان دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کے منہ پر بھی ہے جو اس جرم کی وکالت کرتے تھے۔
Source: 92 news
Must Read Urdu column Yun Dokano per Zameeron ki Farawani na thi By Orya Maqbool jan