زیادتی کی اقسام – حسن نثار
گائے، بھینس، بکرے، بھیڑ کے گوشت سے ’’پروموٹ ‘‘ ہو کر ہم گدھے یعنی کھوتے، پھر کچھوے اور کتے تک پہنچے اور اب تازہ خبر آئی ہے کہ ہم نے چمگادڑ کا گوشت بھی ’’لانچ‘‘ کر دیا ہے ۔
رہ گئی ’’ٹھنڈی مرغی ‘‘ تو اسے آپ روٹین سمجھیں کیونکہ اقبال کے شاہین زندہ مردہ مائنڈ نہیں کرتے۔ جتنی تیزی سے ہم تہذیب و ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں، وہ وقت دور نہیں جب ہم ’’حدود وقت‘‘ سے بھی آگے نکل جائیں گے اور ترقی یافتہ اقوام حیرت وحسرت سے ہاتھ ملتی رہ جائیں گی۔
ایسے میں عمران خان کا یہ کہنا کہ ’’اپوزیشن عوام کی جانیں خطرے میں ڈال رہی ہے ‘‘۔ خاصی بے معنی سی بات ہے کیونکہ ہمارے ہوتے ہوئے ہمیں نہ کسی اپوزیشن کی ضرورت ہے نہ حکومت کی، ہم خود ہی اپنے لئے بہت کافی ہیں اور کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ ہمیں ہمارے ہاتھوں سے بچا سکے کہ ہم اس معاملہ میں خود کفیل ہیں ۔
مجال ہے کسی کی جو مجھے میرے ہاتھوں سے بچا سکے ۔آئے روز خبر آتی ہے کہ ہزاروں لٹر دونمبر دودھ ضائع کر دیا گیا۔یہ دودھ ابھی پاک سرزمین میں پوری طرح جذب نہیں ہوا ہوتا کہ مالکان تازہ جذبہ کے ساتھ دوبارہ اس کارخیر میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
ابھی کل پرسوں خبر تھی کہ پنجاب میں ہزاروں ایکڑ سرکاری زمینیں بااثر لوگوں کے قبضہ سے چھڑا لی گئیں لیکن اس بات کا کہیں ذکر نہ تھا کہ قبضہ کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ کچھ ہوا بھی ہو گا تو ضمانتیں ہو گئی ہوں گی۔چٹی گھوڑی وے وکیلا تیری جے پہلی پیشی یار چھٹ جائےاور اس خبر نے تو سر فخر سے مزید بلند کر دیا ہے کہ ’’زیادتی کے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کے لئے آرڈیننس لانے کا فیصلہ ہو چکا۔جنسی زیادتی کے سنگین معاملے پر ایک لمحہ کی تاخیر بھی برداشت نہیں کریں گے۔فاسٹ ٹریک مقدمات کے ذریعہ انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی‘‘۔
اب تک تو فاسٹ ٹریک پر صرف جرم ہی ہوتے دیکھے ہیں۔ فوری انصاف تو بیانوں کے زندانوں میں ہی ایڑیاں رگڑتے دیکھا گیا ہے تو چلو یہ بیان بھی دیکھ لیتے ہیں۔
لاء، جسٹس اور لیڈر شپ بنیادی طور پر ایک ہی سکے کے دو رخ ہوتے ہیں کیونکہ CICERO مدتوں پہلے کہہ گیا کہ”THE WELFARE OF THE PEOPLE IS THE HIGHEST LAW”اور یہ کبھی ہماری لیڈر شپ کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہا کیونکہ ہمارے لیڈروں کے بارے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے کہ عوام ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں یا اس طرح ان کا پیچھا کر رہے ہیں جیسے کسی مجرم کا پیچھا کیا جاتا ہے۔
جہاں تماشا ہو گا وہاں تماش بین بھی ضرور ہوں گے یا یوں کہہ لیجئے جہاں تماش بین ہوں گے وہاں تماشا ضرور ہو گا یعنی لیڈ کرنے والے اور لیڈ کئے جانے والے ایک دوسرے کا عکس ہی ہوتے ہیں یعنی انصاف دونوں کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں کہ جیسی قوم ہو ویسے ہی حکمران ان پر مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔
میں نے آٹا، چینی مہنگا ہونے پر تو جلسے جلوس ہوتے دیکھے ہیں جو آج تک زور و شور سے جاری ہیں لیکن لوگوں کو کبھی حصول انصاف کیلئے تحریک چلاتے نہیں دیکھا کہ جنہیں اناج علاج ہی جینے نہیں دیتا.
وہ انصاف لیکر چاٹیں گے؟عرض کرنے کا مقصد یہ کہ چند مخصوص گروہوں کی اس ریاست اور اس کی نام نہاد سیاست میں فوری انصاف نہ کسی لیڈر کا مسئلہ ہے نہ عوام کا جیسے تھانہ کلچر میں تبدیلی کا گھسا پٹا ترانہ اور یوں بھی جو لوگ خود قدم قدم پر قانون شکنی سے لطف اندوز ہوتے ہوں وہ قانون کے نفاذ کی خواہش کیسے کر سکتے ہیں اور احمق، بے وقوف یا کودن ہونا تو جرم بھی نہیں ہے ۔
ہم جیسے ملکوں میں بہت سے قوانین موجود ہیں، بہت سے پاس ہونے کے بعد بائی پاس کر دیئے جاتے ہیں ۔یہ غلاظت کسی ڈبل ایکشن یا ٹرپل ایکشن ڈٹرجنٹ یا مہنگے صابن کے بس کی بات نہیں ….اسے سچی تبدیلی کے تیزاب سے غسل دینا ہو گا۔”THE ARM OF THE LAW NEEDS A LITTLE MORE MUSCLE.”جب تک قانون کے بازو کا مسل قانون شکن کے بازو کے مسل سے زیادہ مضبوط اور تگڑا نہیں ہوگا.
تب تک ایسے ہی بیانوں پر بغلیں بجائو کہ ….’’زیادتی کے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کیلئے آرڈیننس لا رہے ہیں اور جنسی زیادتی کے سنگین معاملے پر ایک لمحہ کی تاخیر بھی برداشت نہیں کرینگے‘‘۔
تقریباً پون صدی تو بیت گئی، یہ ایک ’’لمحہ‘‘ بھی دیکھ لیتے ہیں لیکن حکمران بھی دیکھ لیں کہ ’’زیادتی ‘‘ کی قسمیں کتنی ہیں ؟ اور اس میں کیمیکل والا دودھ اور چمگادڑ کا گوشت بھی شامل ہے یا نہیں ؟WE HERD SHEEP; WE DRIVE CATTLE; WE LEAD MEN.
Source: Jung News
Read Urdu column Ziadti ki Iqsaam By Hassan Nisar