ذِلت – علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

چند روز قبل برطانیہ میں زیرِ تعلیم ایک طالب علم کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ ایک بالکونی میں کھڑا ہے اور دو افراد اُس سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے اور اُس کے یہاں آنے کا مقصد کس سے ملنا ہے۔ اُس طالب علم سے متعلق یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ پاکستانی ہے اور چھ ماہ قبل ہی اُس کا برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ ہوا تھا۔ وڈیو میں کافی دیر تک دونوں افراد (ایک مرد اور ایک خاتون)اُس سے خود تفتیش کرتے ہیں اور آخر میں پولیس اُسے گرفتار کرکے لے جاتی ہے۔ وہ طالب علم اس دوران اُن کی منت سماجت کرتا رہا۔ وہ کبھی گھٹنوں کے بل بیٹھ کر رو رہا تھا اور کبھی گڑگڑا رہا تھا کہ میرے والدین نے سب کچھ بیچ کر مجھے یہاں بھیجا ہے، میرا مستقبل تباہ ہو جائے گا۔ لیکن اُس کے رحم کی بھیک مانگنے، منت سماجت کرنے اور رونے دھونے کا سامنے والے افراد پہ کوئی اثر نہ ہو سکا۔ بلکہ اُسے ان منت ترلوں کے جواب میں کہا گیا کہ تم اگر یہی سب یہاں آنے سے پہلے سوچتے تو اِس صورتحال سے دوچار نہ ہوتے۔

اُس طالب علم کی انگریزی اور کمیونیکیشن سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بہت زیادہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں تھا بلکہ جیسے پاکستان کے بیشتر دیگر طلبہ سٹڈی ویزہ پر روزگار کی تلاش میں دیارِ غیر جاتے ہیں وہ بھی اُنہی میں سے ایک تھا۔ اُس نے لیکن ایسا کیا کِیا تھا کہ وہ اتنے بڑے مسئلے میں پھنس گیا اور پولیس نے اُسے گرفتار تک کر لیا۔

وہ لوگ جو مغربی ممالک میں جانے سے پہلے وہاں کی تہذیب و ثقافت سے آشنا نہیں ہوتے، وہاں پہنچ کر اور وہاں کے طور اطوار دیکھ کر ایک دفعہ مبہوت رہ جاتے ہیں۔ یہاں سے امریکہ یا یورپ میں پہلی دفعہ جانے والے افراد کی اکثریت سمجھتی ہے کہ مغربی ممالک کا جیسا کلچر وہ ہالی وُڈ فلموں میں دیکھ چکے ہیں، وہاں پہنچ کر بھی اُنہیں سب کچھ ویسا ہی ملے گا۔ مگر جیسے پاکستانی ڈرامے اور فلمیں ہمارے معاشرے کی حقیقی عکاسی نہیں کرتے بالکل اُسی طرح ہالی وُڈ کی فلمیں اور ڈرامے بھی اُس معاشرے کے حقیقی عکاس نہیں ہوتے۔ پاکستان سے جانے والے کچھ افراد کی یہی غلط فہمیاں اُب کےلئے مشکلات کیا کبھی کبھار تو تباہی کا باعث بن جاتی ہیں۔

اُس طالب علم نے کام ہی کچھ ایسا کیا تھا کہ وہ گرفتاری کا حقدار ٹھہرا۔ اُس نے ایک کم عمر ( برطانوی قوانین کے مطابق 16سال سے کم عمر والی) برطانوی لڑکی سے آن لائن دوستی کی، اُس سے غیر مناسب گفتگو کی، اُسے غیر اخلاقی وڈیوز بھیجیں اور اب اُس وائرل ہونے والی وڈیو میں جو دو افراد اُس لڑکے سے پوچھ گچھ کر رہے تھے اُن کے مطابق وہ اُسے اپنے ساتھ لے جانے آیا تھا۔ وڈیو میں یہ تو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ لوگ کون ہیں جنہوں نے اُسے روک رکھا ہے، مغربی ممالک میں کچھ والنٹیئراور سوشل میڈیا ایکٹو یسٹ ایسے ہوتے ہیں جو کم سن لڑکیاں یا لڑکے بن کر لوگوں کو میسج کرتے ہیں اور جو اُن سے رابطہ کرے یا ملنے آئے، اُس کی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں اور اُسے پکڑ بھی لیتے ہیں۔ وڈیو سے یہ بھی ظاہر ہو رہا تھا کہ حراست میں لئے جانے والا طالب علم اُس لڑکی سے بات چیت کرنے کے دوران جان چکا تھا کہ اُس کی عمر تیرہ برس ہے۔

نہایت افسوس سے لکھنا پڑھ رہا ہے کہ برطانیہ میں پہلے بھی اسی قسم کے جرائم میں ملوث کئی پاکستانی پکڑے جا چکے ہیں۔ لارڈ نذیر پر بھی اسی طرح کے الزامات عائد ہونے کے بعد نہ صرف اُنہیں ہائوس آف لارڈز سے نکال دیا گیا بلکہ اُنہیں جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی۔پھر ضلع قصور میں جو ہوتا رہا وہ بھی دنیا میں ہمارے لئےذِلت کا باعث بنا۔

مغربی ممالک میں اس قسم کے جرائم کو بہت حساس اور سنگین نوعیت کے جرائم سمجھا جاتا ہے اور وہاں ان جرائم میں چھوٹ کی کوئی گنجائش نہیں حتیٰ کہ وہاں کم سن بچوں سے اجنبیوں کا بات کرنا بھی بہت بڑا جرم تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں سنگین ترین جرائم میں شمار کئے جانے کے باعث اس جرم کی کوئی معافی نہیں ہے۔ مغربی ممالک کے بارے میں یہ بات بالکل درست ہے کہ وہاں بچے والدین کے نہیں بلکہ ریاست کے ہوتے ہیں اور وہ سخت قوانین کی روشنی میں والدین کو محض پرورش کے لئے دیے جاتے ہیں۔اس قسم کے جرائم میں پکڑے جانے کی صورت میں نہ ہی آپ کی منتیں، نہ باپ کا لگایا ہوا پیسہ اور نہ ہی کوئی اور بہانہ کام آتا ہے۔ قانون کی روشنی میں آپ وہاں برسوں بعد بھی اپنے سب اعمال کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیوز کی تصدیق آسان نہیں ہوتی، اس لئے یہ تعین نہیں کہا جا سکتا کہ مذکورہ وڈیو کب کی ہے۔ اس وڈیو سے مگر جو سیکھا جا سکتا ہے وہ سیکھنا بہت ضروری ہے۔ وہ پاکستانی طالب علم جو مغربی ممالک کا ویزہ ملنے پر پھولے نہیں سماتے، وہ مغربی معاشرے سے صرف فلموں اور ڈراموں کی حد تک واقفیت رکھتے ہیں۔ یہ کلچر شاک اُن کے لئےبے شمار مشکلات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ بیرونی ممالک میں سیاحت کے لئے جانے والوں کو بھی اُن ممالک کی اقدار اور تہذیب کا خیال رکھنا چاہئے ، کچھ عرصہ قبل ترکی میں پاکستانی سیاحوں کے حوالے سےٹوئٹر پر مہم چلائی گئی تھی جو وہاں ترکش لڑکیوں کی اجازت کے بغیر اُن کے ساتھ تصاویر بنوا رہے تھے۔اس لئے ضروری ہے کہ بیرونی ممالک میں جانے والے طالب علم، سیاح اور مزدور متعلقہ ملک اور معاشرے کی اقدار، تہذیب اور قوانین سے متعلق آشنائی حاصل کرکے جائیں بالخصوص اس جیسے حساس معاملات میں، تاکہ نہ صرف ایسے واقعات بلکہ دیگر معاملات میں بھی جو ملک کے لئے بدنامی کا باعث بنتے ہیں، سے احتراز ممکن ہو سکے۔ اُن ممالک کے اقدار ، تہذیب اور قوانین سے قطع نظر دنیا میں انسانیت نام کی بھی کوئی چیز ہے، ہمیں ایسے کاموں سے گریز کرنا چاہئے جو ہمارے انسان ہونے پر ہی سوالیہ نشان اُٹھا دیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Must Read Urdu column Zillat By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.