زندگی کا ایک گھنٹہ – جاوید چوہدری
صفدر شاہ بخاری کی عمر صرف 27 سال ہے‘ صوابی کے رہائشی ہیں‘ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں‘ لاہور سے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی‘ تعلیم کے دوران کاروبار شروع کیا اور یہ ڈگری ملنے تک انڈیپنڈنٹ ہو چکے تھے۔
زندگی مطمئن اور سیٹل تھی‘ مستقبل روشن تھا اور حالات کنٹرول میں تھے‘ 2018 میں شادی ہوئی‘ 2019 میں اللہ تعالیٰ نے بیٹا عنایت کر دیا اور یوں زندگی کے تمام ’’مسنگ لنک‘‘ مکمل ہو گئے لیکن پھر بیٹے کی پیدائش کے ایک ماہ بعد صفدر شاہ بخاری کو اپنے جسم میں عجیب سی تبدیلیاں محسوس ہونے لگیں‘ بار بار واش روم جانا پڑتا تھا لیکن حاجت نہیں ہوتی تھی۔
پاخانے میں خون بھی آتا تھا اور اس کی رنگت بھی سیاہ ہوتی تھی‘ یہ کسی دوست کی تحریک پر ڈاکٹر سے ملے‘ ڈاکٹر نے معدے کے ڈاکٹر کے پاس بھجوا دیا‘ اینڈو اسکوپی ہوئی تو پتا چلا بڑی آنت میں ٹیومر ہے‘ بائیو آپسی ہوئی تو کینسر نکل آیا‘ یہ شوکت خانم پہنچ گئے‘ تفصیلی معائنہ کیا گیا تو کینسر چوتھے درجے کا نکل آیا‘ معدہ اور جگر بھی متاثر ہو چکے تھے‘ شوکت خانم نے علاج سے معذرت کر لی یوں صفدر شاہ بخاری کی زندگی ایک ہی رات میں روشنی سے اندھیرے میں آ گئی‘ زندگی کا رخ آگے کے بجائے پیچھے کی طرف ہو گیا۔
یہ باہمت انسان ہیں‘ مایوسی کے باوجود مایوس نہیں ہوئے‘ ڈٹے ہوئے ہیں‘ مردانہ وار بیماری کا مقابلہ کر رہے ہیں‘ سال میں چار بڑی سرجریز ہوئیں‘ بڑی آنت کاٹ دی گئی‘ ساٹھ فیصد معدہ کاٹ دیا گیا اور جگر کا متاثرہ حصہ بھی کٹ گیا‘ یہ 13 بار کیموتھراپی کے عمل سے بھی گزر چکے ہیں‘ کیموتھراپی ایک خوف ناک عمل ہوتا ہے‘ یہ پورے جسم کو ہلا کر رکھ دیتا ہے اور انسان ہفتہ ہفتہ اذیت سے باہر نہیں آ پاتا اور یہ نوجوان 13 بار اس عمل سے گزر چکا ہے اور نہ جانے اسے مزید کتنی بار اس سے گزرنا ہو گا۔
صفدر شاہ بخاری سے میری ملاقات جمعہ 4 دسمبر کو ہوئی‘ ہم ٹیکسلا کے دھرما راجیکا کے آثار قدیمہ سے نیچے اتر کر ندی کے قریب کھڑے تھے‘ یہ ہجوم سے نکلے‘ قریب آئے اور میرے کان میں سرگوشی کی’’ میں کینسر کا مریض ہوں ‘ میں زندگی کا ایک اچھا دن گزارنے کے لیے آپ کے گروپ میں شامل ہوا ہوں‘‘ میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا‘ یہ شکل سے خوب صورت‘ صحت مند اور ایکٹو دکھائی دیتے تھے‘ میں نے پوچھا ’’آپ نے کیا کہا‘‘ صفدر شاہ نے اپنی بات دہرا دی‘ میں نے سارے گروپ کو جمع کیا اور مائیک صفدر شاہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
نوجوان نے اپنی کہانی سنانا شروع کر دی‘ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر ہم سب کچھ بھول گئے‘ ٹیکسلا کی ساڑھے تین ہزار سال پرانی تہذیب‘ دھرما راجیکا کے اسٹوپا‘ اشوک اعظم کا محل‘ جولیاں کی قدیم درس گاہ اور سرکپ کا وہ عظیم شہر جسے دیکھ کر اسلام آباد کا نقشہ بنایا گیا تھا‘ ہم سب کچھ بھول گئے اور وہاں صرف اور صرف ایک شخص تھا اور اس شخص کا نام صفدر شاہ بخاری تھا‘ وہ ہم سب کی کتاب زیست کا عرق بن چکا تھا۔
عرق حیات‘ صفدر شاہ بخاری نے آخر میں کہا ’’ زندگی کا کم از کم ایک دن بھرپور گزار لیا کریں‘ کل کیا ہو گا ہم میں سے کوئی شخص نہیں جانتا‘ میں بھی آپ کی طرح لاپروا تھا‘ میرا بھی خیال تھا یہ میلہ کبھی ختم نہیں ہو گا لیکن ایک میڈیکل رپورٹ نے میری ساری زندگی بدل دی‘ تم اس رپورٹ سے پہلے خود کو بدل لو منافع میں رہو گے‘‘ میں نے لقمہ دیا’’ زندگی کا ایک اچھا دن پوری زندگی پر بھاری ہوتا ہے‘‘ صفدر شاہ نے تڑپ کر میری طرف دیکھا اور کہا’’ ایک دن نہیں سر‘ ایک اچھا گھنٹہ بھی کافی ہوتا ہے‘ آپ اس ایک گھنٹے کے سہارے دن اور پھر ایک اچھے دن کے سہارے اپنی پوری زندگی گزار سکتے ہیں‘‘ ہم سب نے بے اختیار ہو کر تالیاں بجائیں اور جولیاں کی طرف چل پڑے۔
یہ صفدر شاہ بخاری کی تقریر کا پہلا حصہ تھا‘ ہم نے دوسرا حصہ ٹیکسلا میوزیم کے لان میں سنا لیکن اس طرف آنے سے پہلے میں آپ کو اپنے گروپ کے بارے میں بتاتا چلوں‘ ہم نے آئی بیکس (IBEX) کے پلیٹ فارم سے لوکل ٹورز بھی شروع کر دیے ہیں‘ ہماری حکومت دنیا کو پاکستان دیکھنے کی دعوت دیتی رہتی ہے لیکن سوال یہ ہے‘ کیا ہم نے پاکستانیوں کو پاکستان دکھا دیا ہے؟ کیا ہم نے خود پاکستان دیکھ لیا ہے؟
اس سوال کا جواب نفی میں آئے گا‘ سیاحت ہمیشہ لوکل سے انٹرنیشنل بنتی ہے اور یہ مزاج بھی ہوتی ہے‘انسان کا مزاج بنانا پڑتا ہے‘یہ خود بخود نہیں بنتا‘ ملک کی ہر حکومت شروع میں مجھ سے پاکستان میں ٹورازم بہتر بنانے کا ’’گُر‘‘ پوچھتی ہے‘ میں حکومت کو پریذ نٹیشن بھی دیتا ہوں‘ میں فخر سے اعتراف کرتا ہوں الحمد للہ کسی حکومت نے آج تک میری کسی تجویز پر عمل نہیں کیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ملک میں ٹورازم میں امپرومنٹ کے بجائے زوال آیا اور یہ زوال بھی اب پیندے میں رینگ رہا ہے‘ میں ہر پریذنٹیشن کے آخر میں وہاں موجود لوگوں سے دو سوال پوچھتا ہوں‘ پہلا سوال یہ ہوتا ہے آپ میں سے خود کون کون ٹوریسٹ ہے؟
کس نے نارتھ پول یا سائوتھ پول دیکھا یا کس نے یوتھ ہاسٹلوں میں دھکے کھائے ہیں‘ ایک بھی ہاتھ کھڑا نہیں ہوتا‘ ٹورازم کی پالیسی بنانے والوں کی سیاحت زیادہ سے زیادہ لندن‘ نیویارک‘ ہالی ووڈ یا سنگاپور تک محدود ہوتی ہے اور میں اس کے بعد ان سے دوسرا سوال پوچھتا ہوں‘ آپ نے پاکستان میں کیا کیا دیکھا؟ پتا چلتا ہے یہ پاکستان کی زیارت سے بھی محروم ہیں چناں چہ پھر کیا پالیسی بنے گی اور اس پر کیا عمل ہو گا؟
ہم نے تین سال قبل جب ہم خیال گروپ اور آئی بیکس بنائی اور ایمبیسیوں اور مختلف ملکوں کی ٹورازم منسٹریز سے رابطے شروع کیے تو ہر سفیر اور ہر ملک کی ٹورازم منسٹری نے ہمارے گروپ سے ایک سوال ضرور پوچھا ’’آپ نے پاکستان کا کون کون سا حصہ دیکھا‘‘ جواب ان کو بھی حیران کر دیتا تھا اور ہمیں بھی‘ پتا چلا پاکستانیوں نے بھی پاکستان نہیں دیکھا۔
اسلام آباد میں رہنے والے ننانوے فیصد لوگ یہ بھی نہیں جانتے ان سے 30 کلو میٹر کے فاصلے پر ٹیکسلا نام کا ایک شہر ہے اور اس شہر میں تہذیب‘ تاریخ اور تمدن کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے اور ہمارے لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہیں‘ یہ صورت حال خوف ناک تھی‘ یہاں پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے وہ ملک جس میں لوگوں کو آٹا‘ چینی‘ دالیں اور ٹماٹر نہیں ملتے اس کے شہریوں کے لیے ٹیکسلا دیکھنا کیوں ضروری ہے؟
بہت ضروری ہے! ہم جب تک ٹیکسلا نہیں دیکھیں گے ہم اس وقت تک ٹماٹروں‘ دالوں‘ چینی اور آٹے سے آگے نہیں بڑھ سکیں گے‘ وقت کے تین حصے ہوتے ہیں‘ ماضی‘ حال اور مستقبل ‘ہم انسان جب تک ماضی سے نہیں جڑتے ہمارا حال‘ حال نہیں ہوتا اور ہم جب تک حال کی حقیقت سے واقف نہیں ہوتے ہم اس وقت تک مستقبل میں بھی نہیں جا سکتے‘ جانوروں اور انسانوں میں ایک فرق ماضی کا بھی ہوتا ہے‘ جانوروں کا کوئی ماضی‘ کوئی ہسٹری نہیں ہوتی چناں چہ ان کا کوئی مستقبل بھی نہیں ہوتا‘ یہ صرف پیدا ہوتے ہیں اور مرتے ہیں جب کہ انسان زندگی کی سلیٹ پر اپنا نقش چھوڑ کر جاتا ہے اور یہ نقش تاریخ کہلاتا ہے‘ ہم جب تک تاریخ سے نہیں جڑتے ہم اس وقت تک کرایہ دار رہتے ہیں۔
ہم مالک نہیں بنتے‘ پاکستانیوں کو پاکستان سے اس لیے بھی محبت نہیں ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ سے نہیں جڑ رہے لہٰذا یہ یہاں سے نکلنے‘ یہاں سے بھاگنے کی کوشش میں رہتے ہیں‘ ہم نے پاکستانیوں کو پاکستان دکھانے کا فیصلہ کر لیا‘ ہمارا پہلا گروپ 4 دسمبر کو ٹیکسلا گیا اور پاکستانی پاکستان کے اس حصے کو دیکھ کر حیران رہ گئے‘ ہم نے ٹیکسلا میں چھ گھنٹے گزارے اور ہم تاریخ کے بہتے ہوئے دھارے کاحصہ بن گئے‘ ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہونے لگا۔
ہمارے ساتھ لاہور کی ایک رانا فیملی بھی تھی‘ رانا اظہر صاحب نے ایم اے کیا اور نوکری تلاش کرنے کے بجائے اپنے والد کی قلفی کی ریڑھی کا چارج لے لیا اور بیس سال میں اس قلفی کو لاہور کا مشہور برینڈ بنا دیا‘ رانا صاحب کے پانچ بیٹے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں لیکن یہ سب جانتے ہیں ہم نے صرف قلفی بیچنی ہے اور یہ مزے سے بیچ رہے ہیں‘انھیں کسی قسم کا کوئی کمپلیکس‘ کوئی احساس کمتری نہیں‘ میں نے رانا صاحب سے عرض کیا‘ آپ دیکھیں آپ نے قلفی کو عزت دی اور قلفی نے آپ کو عزت کے ساتھ ساتھ رزق بھی دیا‘ دنیا میں عزت صرف کام کو عزت دینے والوں کو ہی ملتی ہے۔
ہم ٹیکسلا میوزیم کے لان میں بیٹھے تھے‘ مائیک صفدر شاہ بخاری کے ہاتھ میں تھا‘ بخاری صاحب نے اپنی کہانی سنائی اور آخر میں کہا’’ میں اب اپنا سارا وقت خاندان کو دیتا ہوں‘ پیسہ‘ پروفیشن اور ترقی دنیا کی ہر چیز میرے اور میرے خاندان کے لیے بے معنی ہو چکی ہے‘ میری آپ سے درخواست ہے آپ اپنے آپ اور اپنے خاندان کو زیادہ سے زیادہ وقت دیا کریں‘ دنیا میں آپ اور آپ کے خاندان سے بڑی حقیقت کوئی نہیں‘ دوسرا آپ ابھی واش روم سے ہو کر آئے ہیں‘ میں بھی گیا ہوں لیکن آپ اور میرے جانے میں زمین آسمان کا فرق ہے‘ میرے پیٹ پر اسٹول کا بیگ لگا ہے‘ میں یہ بیگ صاف کرتا ہوں اور آپ خود کو صاف کر کے باہر آتے ہیں۔
میری آپ سے اپیل ہے آپ جب بھی واش روم سے باہر نکلیں تو اللہ کا لاکھ لاکھ شکر اداکیا کریں‘ اس نے آپ کو واش روم میں جانے‘ فارغ ہونے اور باہر آنے کی نعمت سے نواز رکھا ہے‘ دنیا میں میرے جیسے لاکھوں لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہیں‘‘ یہ لفظ محض لفظ نہیں تھے یہ برف تھے اور ہمیں یہ برف اپنی ریڑھ کی ہڈی میں اترتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی‘ ہم کس قدر ناشکرے اور غافل ہیں‘ بے شک انسان غافل بھی ہے اور خسارے کا سوداگر بھی۔
Must Read Urdu column Zindagi Ka Aik Ghanta by Javed Chaudhry